Wednesday, 13 March 2013

جنرل شجاع پاشا اور جمہوریت

کہتے ہیں تاریخ اپنےآپ کو دوہراتی ہے، کیا پرویز مشرف کی واپسی تاریخ کی ایک حقیقت یا فسانہ رہے گا۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ مشرف صاحب نے میرے پروگرام میں سترا اور چوبیس مارچ کے درمیان پاکستان واپسی کا اعلان کیا ہے۔ کیا حسن اتفاق ہے اس کہانی میں تین لوگ بار بار ایک دوسرے کا راستہ کاٹ رہے ہیں،جنرل مشرف،جنرل کیانی اور جنرل پاشا۔ جس شخص کو میں ناچیز نے فتنہ کہا تھا یعنی جنرل شجاپاشا پاکستان کے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اوراب یواے ای کی ایک ریاست کے بادشاہ کے مشیر خاص ہیں۔ پاکستان میں فوج کے چیف سے زیادہ طاقتور کرسی آئی ایس آئی کے چیف کی ہے اور یہ بات جنرل شجاع پاشا کواس کرسی پر بیٹھ کرپتہ چلی۔ شجاع پاشا سابق صدر پرویز مشرف کے دورمیں اہم پوزیشنوں پر رہے اور مشرف کے اچھے دوستوں میں بھی شمارہوتے ہیں۔ پچھلی دفعہ جب مشرف صاحب کوپاکستان آنے کا بھوت سوار ہوا تو فوج کو یہ زمہ داری اُٹھانہ بلکل قابل قبول نہ تھی اسی لیے جنرل پاشا کوبھیج کر مشرف کوملک واپس نہ آنے پررضامند کیاگیا۔
 اب آپکوایک ایسی بات بتاتی ہوں جسے سن کرآپ سکتے میں چلے جائیں گے،  میں بھی چلی گئی تھی۔ جب ایک زمانے میں میرے صدرزرداری سے بہت اچھے تعلقات تھے تو میں ایک دن صدرزرداری کی دعوت پربلاول ہاؤس گئی۔ اس دن انھوں نے مجھے ایک ایسی بات بتائی کہ میں حقہ بقہ رہے گئی، ہم کھانے کی ٹیبل پربیٹھے تھے کہ صدرزرداری نے مجھے یہ کہا کہ میں نے جنرل پاشا سے کہہ دیا ہے کہ آپ لوگ یعنی کہ فوج میرے خلاف سازشیں کررہی ہے اور میں اس بات کا آپکے سامنے گواہ بھی رکھوں گا۔ میں نے صدر سے پوچھاکس گواہ کا ذکرکررہے ہیں؟ توانھوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے بلا جھجک کہا آپ کا ذکر کررہاہوِں، یہ سُن کر کھانا میرے حلک میں پھنس گیا اور میں نے ان سے پوچھا کہ میں نے کب آپ سے یہ کہا کہ فرشتے آپکے خلاف سازشیں کررہے ہیں؟ تو بولے کہ تمہاری باتوں سے میں نے اندازہ لگایا تھا کہ میرے خلاف تمام پروپگنڈا جنرل پاشاکی زیرہدایت ہورہا ہے۔ جس پر میں نے پوچھا کہ آپ نے جب جنرل پاشا سے یہ بات کہی تو کیا کہا آپ نے؟ صدر نے کہا میں نے پاشا کو بولا تھا کہ میری ایک بہت اچھی خاتون صحافی جیسمین کیا آپ انھیں جانتے ہیں تو پاشا نے کہا جی ہاں! صدرزرداری نے کہا تو پھرکیا میں آپکا آمناسامنا اس سے کروا دوں تاکہ جھوٹ اور سچ کا پتہ چل جائے، جس پر پاشا نے صدرسے کہاکہ اس کی ضرورت نہیں آپکو جوکچھ بھی ہمارے بارے میں بتایا گیا ہے وہ درست نہیں۔
ذراسوچیئے! اگر جنرل پاشا صدر کی بات مان کر مجھ سے آمنا سامنا کرنے کو راضی ہو جاتے تو میں کیا کرتی؟ ایک طرف ملک کا صدراور ایک طرف ملک کی انٹیلی جنس کا چیف، مجھ ناچیزکو یہ سمجھ نہ آیاکہ کیا صدرزرداری نے مجھے مروانے کا سوچھ لیا تھا!
صدر کی بات سنے کہ بعد میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ صدر زرداری نے کہا میں ان جھوٹوں کو بے نقاب کرنا چاہتا تھا لیکن چھوڑو اس بات کو کیونکہ میری بات سن کر جنرل پاشا ویسے ہی بھاگ گیا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ میں نے صدر زرداری کو بہت دفعہ یہ بات بتائی کہ فوج آپکو پسند نہیں کرتی اور  بھارت اور امریکہ کہ حوالے سے جو وہ بیانات دیتے ہیں اس سے فوجی قیادت ان سے بہت ناراض ہے، خاص طور پرجب ممبئی کا واقعہ ہوا اور صدر نے جنرل پاشا کوبھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اس سے پہلے بھی جب وہ صدر نہیں بھی بنے تھے تو انھوں نے آئی ایس آئی کووزارت داخلہ کہ ماتحت کرنے کا نوٹیفیکشن نکالا جو پھر واپس لینا پڑا۔ صدر زرداری کی ہمیشہ سے خواہش آئی ایس آئی کو لگام ڈالنے کی تھی جو ممکن نہ ہوسکی۔
بطورآئی ایس آئی چیف جنرل پاشا نے جو سب سے بڑا ڈرامہ کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر رچایا وہ میموگیٹ اسکینڈل تھا، جنرل پاشا نے تین دفعہ جمہوریت کو لپیٹنے اور ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کو لانے کا پورا پلان بنا لیا تھا، لیکن اس پلان کو جنرل کیانی نے کامیاب نہ ہونے دیا۔ ایک اسامہ بن لادن کہ بعد، این آر او کے کلعدم ہونے کہ بعد اور آخری وار میموگیٹ کا تھا۔ میموگیٹ کا وار جب کامیاب نہ ہوسکا اور فوج اس میں مزید بدنام ہوئی، خاص طور پر جب جنرل کیانی نے جواب در جواب سپریم کورٹ میں جمع کروادیئے۔ اس کھیل میں جنرل پاشہ کے ساتھی مسلم لیگ نواز والے بھی تھے، حاصل وصول کچھ نہ ہواسوائے اسکے کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا، اور بقول حسین حقانی کہ نا ان سے کوئی سوال کیا گیا نہ ہی کوئی جواب مانگا گیا۔ بس پاشا، کیانی، زرداری اور گیلانی کی موجودگی میں ان پر الزامات کی بوچھاڑ کرکے انھیں فارغ کردیا گیا۔ میموگیٹ کی شکست کہ بعدجنرل پاشا کاایک سال کی مزیدایکسٹینشن کاخواب پورانہ ہوسکا۔ ترکی میں ایک کانفرنس کے دوران ان کو آہستہ سے آکران کے اسٹاف نے بتایا کہ سر اب آپ ڈی جی آئی ایس آئی نہیں رہے آپ کی جگہ نیا ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیرالسلام کولاگا دیا گیا ہے۔

Friday, 1 March 2013

جنرل اشفاق پرویز کیانی کا خواب۔۔

یہ معمہ میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ 35 سال کی فوجی سروس ، مشرق سے مغرب تک ٹریننگ اور پہاڑوں اور صحراؤں میں زندگی گزارنے والے شہر کی ٹھنڈی ہواؤں میں پہنچ کر اچانک اتنے مفاد پرست اور بدلے بدلے سے کیوں ہو جاتے ہیں۔ میں اُن چند خوش قسمت خاکی وردی والوں کی بات کر رہی ہوں جو میجرجنرل، لیفٹیننٹ جنرل اور جنرل تک پہنچنے کی قابلیت اورصلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہونگے ان سب باتوں کا جنرل کیانی کے خواب سے کیا تعلق ہے تو سُنیے!آپ کو آج جنرل کیانی کی ایکسٹینشن سے پہلے کے دور2008 میں لیئے چلتی ہوں۔ آصف علی زرداری نے جب صدر پاکستان کا حلف لیا تو وہ پاکستان میں سب کچھ بدلنا چاہتے تھے، اُن کی باتیں سن کر کبھی ہنسی اور کبھی رونا آیا لیکن جو چیز وہ دل سے بدلنا چاہتے تھے وہ تھی پاکستانی فوج کی سوچ اس لیئے انھوں نے بار بار جمہوریت بہترین انتقام کے نعرے لگائے۔ جنرل کیانی وہ شخص تھے جنھیں زرداری صاحب کبھی ایکسٹینشن نہیں دینا چاہتے تھے اور یہ ہی سچ ہے، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور جو کام وہ نہیں کرنا چاہتے تھے وہ ہی کام اُن کو کرنا پڑا اور ایک یا دو نہیں پورے تین سال کی توسیع کی سمری پر دستخط کردیئے۔ صدر زرداری کیانی کوایکسٹینشن دینے کے حق میں اس لیئے نہیں تھے کیونکہ ان کو لگتا تھا کہ اگر ان کی حکومت کی بساط لپیٹی گئی تو اس کےذمہ دار دوہی لوگ ہونگے جنرل کیانی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری، لیکن جنرل کیانی نے جمہوریت کو پھلتے پھولتےاور 5 سال مکمل کرنے اور صاف و شفاف انتخابات کرانے کا خواب دیکھ رکھا تھا۔ اس خواب کا صدر زرداری کو بہت دیر سے پتا چلا وہ بھی اس طرح کے جنرل کیانی کے دونوں بھائی امجد پرویز کیانی اور کامران کیانی نے اپنے بڑے بھائی کے عہدے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان کے بزنس کے بڑے سے بڑے پرائیوٹ اور گورنمنٹ کنٹریکٹز میں ملوث ہوگئے اور خوب مال بنا رہے ہیں اور جس بزنس میں ملک ریاض کا نام نہ آئے وہ شاید پاکستان میں ناکام بزنس ہوتا ہے۔ اس طرح ڈیل کا پہلا حصہ طے پایا اوردوسرے حصے میں کیانی کازرداری کی حکومت کی بساط نہ لپیٹنے کی یقین دہانی اوربدلے میںزرداری حکومت کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں خاص طور پرپاک۔امریکہ تعلقات میں عملی طورپرلاتعلق رکھناطے پایا۔ تویوں زرداری۔کیانی تین سالہ معاہدہ یاریوں میں تبدیل ہو گیا۔ ملک کے لحاظ سے تین سال ایکسٹینشن دینا ایک بدترین فیصلہ تھا، وجہ یہ کہ جنرل کیانی ملک کے وہ پہلا سپہ سالار ہیں جن کی کمانڈ میں جی ایچ کیو پر حملہ، مہران بیس پرحملہ اورایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کاملنا جیسے بڑے واقعات رونما ہوئے۔ 
اب ایک اور بات سنئیےجنرل پرویزمشرف نے جنرل کیانی پر بےحداعتماد کیاتھا اور یہ جائز بھی تھا کیونکہ مشرف پر جھنڈاچیچی پرہونے والے حملے کے تمام لوگ جنرل کیانی نے پکڑلیے اور پھر کیا تھا مہربانیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا، جنرل کیانی نے جی بھر کرمشرف کا اعتماد حاصل کیا اور انھیں ڈی جی آئی ایس آئی سے چیف آف آرمی اسٹاف بنا دیا گیا۔ ہائے رے ہائے مشرف کو کیا پتہ تھا کہ وقت پڑنے پر کیانی ہی منہ موڑ لے گا۔ 
میں وہ رات کبھی بھی نہیں بھول سکتی جس رات مشرف کے کچھ قریبی ساتھیوں نے انھیں اپنی اس غلطی کا احساس دلایا اور جنرل کیانی کو برطرف کرکے جنرل ندیم کوچیف آف آرمی اسٹاف بنانے کا مشورہ دیا۔ شاید جنرل کیانی کی زندگی کی وہ سب سے بھاری رات تھی کیونکہ اس خبر کا سنتے ہی وہ ساری رات مشرف کے کیمپ آفس کے باہر ٹہلتے رہے۔ پاک افواج کی ایک بڑی خوبی ہے وہ ملکی مفاد کے فیصلے دلوں سے نہیں دماغ سے کرتے ہیں، فوج کے اعلٰی افسران نے مشرف کو جنرل کیانی کوبرطرف کرنے کے فیصلے کے بدترین نتائج سے آگاہ کیا اور کہا کہ اپنی زات کو بچانے کیلئے فوج کے چیف کو بدلنہ ایک خوفناک فیصلہ ہوگا۔ 
جنرل کیانی کا خواب تو اب پوراہونے جارہا ہے یہ اور بات ہے کہ کچھ گرم خون رکھنے والے کورکمانڈرز ان پانچ سالوں کو ملک کے بدترین پانچ سال قرار دیتے ہیں۔ 
کہتے ہیںجنرل کیانی سوچتے بہت ہیں لیکن جنرل کیانی میں وہ جراثیم نہیں جس سے جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے۔ اب ان پانچ سالوں میں زرداری صاحب بھی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کو اچھی طرح سمجھ گئے ہیں اور کچھ دے اور کچھ لے کی پالیسی پر سلسلہ یوں ہی چل رہا ہے۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ ان پانچ سالوں میں کتنی دفعہ تو بساط لپیٹنے کی بات ہوئی تو میں نے کیانی کو بری الزماں کیسے سمجھا؟؟ اس کہانی میں ایک اور فتنہ بھی ہے جسے آپ جنرل شجاع پاشا کے نام سے جانتے ہیں اگر نہیں جانتے تو اگلے ہفتے کا انتظار کیجئے اچھی طرح جان جائیں گے۔