کہتے ہیں تاریخ اپنےآپ کو دوہراتی ہے، کیا پرویز مشرف کی واپسی تاریخ کی ایک حقیقت یا فسانہ رہے گا۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ مشرف صاحب نے میرے پروگرام میں سترا اور چوبیس مارچ کے درمیان پاکستان واپسی کا اعلان کیا ہے۔ کیا حسن اتفاق ہے اس کہانی میں تین لوگ بار بار ایک دوسرے کا راستہ کاٹ رہے ہیں،جنرل مشرف،جنرل کیانی اور جنرل پاشا۔ جس شخص کو میں ناچیز نے فتنہ کہا تھا یعنی جنرل شجاپاشا پاکستان کے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اوراب یواے ای کی ایک ریاست کے بادشاہ کے مشیر خاص ہیں۔ پاکستان میں فوج کے چیف سے زیادہ طاقتور کرسی آئی ایس آئی کے چیف کی ہے اور یہ بات جنرل شجاع پاشا کواس کرسی پر بیٹھ کرپتہ چلی۔ شجاع پاشا سابق صدر پرویز مشرف کے دورمیں اہم پوزیشنوں پر رہے اور مشرف کے اچھے دوستوں میں بھی شمارہوتے ہیں۔ پچھلی دفعہ جب مشرف صاحب کوپاکستان آنے کا بھوت سوار
ہوا تو فوج کو یہ زمہ داری اُٹھانہ بلکل قابل قبول نہ تھی اسی لیے جنرل پاشا
کوبھیج کر مشرف کوملک واپس نہ آنے پررضامند کیاگیا۔
اب آپکوایک ایسی بات بتاتی ہوں جسے سن کرآپ سکتے
میں چلے جائیں گے، میں بھی چلی گئی تھی۔
جب ایک زمانے میں میرے صدرزرداری سے بہت اچھے تعلقات تھے تو میں ایک دن صدرزرداری
کی دعوت پربلاول ہاؤس گئی۔ اس دن انھوں نے مجھے ایک ایسی بات بتائی کہ میں حقہ بقہ
رہے گئی، ہم کھانے کی ٹیبل پربیٹھے تھے کہ صدرزرداری نے مجھے یہ کہا کہ میں نے
جنرل پاشا سے کہہ دیا ہے کہ آپ لوگ یعنی کہ فوج میرے خلاف سازشیں کررہی ہے اور میں
اس بات کا آپکے سامنے گواہ بھی رکھوں گا۔ میں نے صدر سے پوچھاکس گواہ کا ذکرکررہے
ہیں؟ توانھوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے بلا جھجک کہا آپ کا ذکر کررہاہوِں، یہ سُن
کر کھانا میرے حلک میں پھنس گیا اور میں نے ان سے پوچھا کہ میں نے کب آپ سے یہ کہا
کہ فرشتے آپکے خلاف سازشیں کررہے ہیں؟ تو بولے کہ تمہاری باتوں سے میں نے اندازہ
لگایا تھا کہ میرے خلاف تمام پروپگنڈا جنرل پاشاکی زیرہدایت ہورہا ہے۔ جس پر میں
نے پوچھا کہ آپ نے جب جنرل پاشا سے یہ بات کہی تو کیا کہا آپ نے؟ صدر نے کہا میں
نے پاشا کو بولا تھا کہ میری ایک بہت اچھی خاتون صحافی جیسمین کیا آپ انھیں جانتے
ہیں تو پاشا نے کہا جی ہاں! صدرزرداری نے کہا تو پھرکیا میں آپکا آمناسامنا اس سے
کروا دوں تاکہ جھوٹ اور سچ کا پتہ چل جائے، جس پر پاشا نے صدرسے کہاکہ اس کی ضرورت
نہیں آپکو جوکچھ بھی ہمارے بارے میں بتایا گیا ہے وہ درست نہیں۔
ذراسوچیئے! اگر جنرل پاشا
صدر کی بات مان کر مجھ سے آمنا سامنا کرنے کو راضی ہو جاتے تو میں کیا کرتی؟ ایک
طرف ملک کا صدراور ایک طرف ملک کی انٹیلی جنس کا چیف، مجھ ناچیزکو یہ سمجھ نہ
آیاکہ کیا صدرزرداری نے مجھے مروانے کا سوچھ لیا تھا!
صدر کی بات سنے کہ بعد میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا
کیوں کیا؟ صدر زرداری نے کہا میں ان جھوٹوں کو بے نقاب کرنا چاہتا تھا لیکن چھوڑو
اس بات کو کیونکہ میری بات سن کر جنرل پاشا ویسے ہی بھاگ گیا تھا۔ یہ بات درست ہے
کہ میں نے صدر زرداری کو بہت دفعہ یہ بات بتائی کہ فوج آپکو پسند نہیں کرتی اور بھارت اور امریکہ کہ حوالے سے جو وہ بیانات دیتے
ہیں اس سے فوجی قیادت ان سے بہت ناراض ہے، خاص طور پرجب ممبئی کا واقعہ ہوا اور
صدر نے جنرل پاشا کوبھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اس سے پہلے بھی جب وہ صدر نہیں
بھی بنے تھے تو انھوں نے آئی ایس آئی کووزارت داخلہ کہ ماتحت کرنے کا نوٹیفیکشن
نکالا جو پھر واپس لینا پڑا۔ صدر زرداری کی ہمیشہ سے خواہش آئی ایس آئی کو لگام
ڈالنے کی تھی جو ممکن نہ ہوسکی۔
بطورآئی
ایس آئی چیف جنرل پاشا نے جو سب سے بڑا ڈرامہ کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر رچایا وہ
میموگیٹ اسکینڈل تھا، جنرل پاشا نے تین دفعہ جمہوریت کو لپیٹنے اور ٹیکنوکریٹ سیٹ
اپ کو لانے کا پورا پلان بنا لیا تھا، لیکن اس پلان کو جنرل کیانی نے کامیاب نہ
ہونے دیا۔ ایک اسامہ بن لادن کہ بعد، این آر او کے کلعدم ہونے کہ بعد اور آخری وار
میموگیٹ کا تھا۔ میموگیٹ کا وار جب کامیاب نہ ہوسکا اور فوج اس میں مزید بدنام
ہوئی، خاص طور پر جب جنرل کیانی نے جواب در جواب سپریم کورٹ میں جمع کروادیئے۔ اس
کھیل میں جنرل پاشہ کے ساتھی مسلم لیگ نواز والے بھی تھے، حاصل وصول کچھ نہ
ہواسوائے اسکے کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو اپنی نوکری سے ہاتھ
دھونا پڑا، اور بقول حسین حقانی کہ نا ان سے کوئی سوال کیا گیا نہ ہی کوئی جواب
مانگا گیا۔ بس پاشا، کیانی، زرداری اور گیلانی کی موجودگی میں ان پر الزامات کی
بوچھاڑ کرکے انھیں فارغ کردیا گیا۔ میموگیٹ کی شکست کہ بعدجنرل پاشا کاایک سال کی
مزیدایکسٹینشن کاخواب پورانہ ہوسکا۔ ترکی میں ایک کانفرنس کے دوران ان کو آہستہ سے
آکران کے اسٹاف نے بتایا کہ سر اب آپ ڈی جی آئی ایس آئی نہیں رہے آپ کی جگہ نیا ڈی
جی آئی ایس آئی جنرل ظہیرالسلام کولاگا دیا گیا ہے۔